سیلاب سے سیمانچل کی ایک تہائی آبادی بے گھر  جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے وسیع پیمانے پر سروے جاری ،ایک بیوہ خاتون کے لیے مکان کا سنگ بنیاد 

سیلاب سے سیمانچل کی ایک تہائی آبادی بے گھر
جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے وسیع پیمانے پر سروے جاری ،ایک بیوہ خاتون کے لیے مکان کا سنگ بنیاد 7
کشن گنج : یواین اےنیوز30؍ستمبر2017)بہار میں آئے تباہ کن سیلاب سے سیمانچل کے اضلا ع میں عام زندگی مفلوج ہوکررہ گئی ہے۔ ہزاروں گھرانے اور خاندان بے آسراہوچکے ہیں، ایسے میں جمعیۃ علماء ہند کی ضلعی یونیٹوں نے پہلے ہی دن سے سیلاب زدگان کی راحت رسانی اور انہیں کھانے پینے کی چیزوں کے 36000کٹس کے ساتھ دیگر راحتی اشیاء بھی تقسیم کیا ۔ دوسری طرف بازآبادکاری کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ضرورت مندوں کے لیے تاحال 74مکانات بنا کر حوالے بھی کردیا ہے ۔
مگرجس حساب سے تباہی آئی ہے اور جتنے لوگ بے گھر ہوئے ہیں ،ان کی بازآبادکاری اس علاقہ کا بہت بڑا مسئلہ ہے، چنانچہ گزشتہ 24ستمبر کو جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی حضرت مولانا سید محمود مدنی نے اپنے دورے کے دوران ذمہ داران کوہدایت دی تھی کہ سیمانچل کے سیلاب زدہ علاقوں کاسروے ہنگامی طور پر کیاجائے ، اس کے مطابق تمام اضلاع کے ذمہ داران نے اپنے اپنے ضلع کی بلاک سطح پر سروے کمیٹیاں بنائی ہیں اور پھر ہر بلاک کے ذمہ داران نے اپنے اپنے بلاک میں15 سے 20 کمیٹیاں بنائی ہیں، جمعیۃ علماء ہند کے سیکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی کی نگرانی، ریلیف کمیٹی کے کنوینر جناب مفتی محمد جاوید اقبال صاحب قاسمی (رکن مرکزی مجلس عاملہ) کی رہبری،مولانا غیاث الدین صاحب قاسمی(بانی ومہتمم جامعہ حسینیہ مدنی نگر کشن گنج،خلیفہ ومجاز حضرت فدائے ملت)کی سرپرستی میں پورے سیمانچل میں امدادی و راحتی سرگرمیوں کے ساتھ سروے کاکام بھی جنگی پیمانے پر جاری ہے۔ میانمار کے مہاجرین کے لیے جاری کئے گئے راحتی کاموں کے لیے مولانا حکیم الدین قاسمی کی روانگی کے بعد ناظم عمومی صاحب کی ہدایت پر علاقہ سیمانچل میں جمعیۃ علماء ہند کے آرگنائزر مولانا شفیق احمد القاسمی مالیگانوی پہنچے اور سیمانچل کے ذمہ داران کی معیت میں مختلف بلاکوں کا دورہ کرکے وہاں سروے کے کاموں میں مصروف سروے کمیٹیوں کا جائزہ لے رہے ہیں،اب تکتمام اضلاع میں 60فی صد سروے کاکام پورا کرلیا گیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اگلے ۳ دنوں میں سروے کاکام مکمل کرلیاجائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ سروے کے کاموں کاجائزہ لیتے ہوئے وفد نے کشن گنج کے ٹھاکر گنج بلاک میں بھولابستی گاؤں میں ایک بیوہ کے پختہ گھر کا سنگ بنیاد بھی رکھا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی جگہوں پر سیلاب زدگان کی بازآبادکاری کاکام جاری ہے۔ صوبائی ذمہ داران مولانا محمد قاسم صاحب قاسمی (صدر) مولانا محمد ناظم قاسمی(جنرل سیکریٹری) کی سرکردگی میں جاری سیمانچل ریلیف کمیٹی کی ضلعی ذمہ داران مسلسل سرگرم عمل ہیں، جبکہ مرکزی آرگنائزر مولانا قاری نوشاد عادل بھی تمام کمیٹیوں کے رابطے میں رہ کر مصروف عمل ہیں، ضلعی سطح پر ارریہ وکشن گنج میں حاجی بذل الرحمن، مفتی اطہرالقاسمی، مولانا معروف قاسمی ، مفتی مناظرقاسمی ، مولانا خالد انور قاسمی ، مولانا حدیث اللہ، پورنیہ ضلع میں مولانا ابو صالح، مولانا امتیاز قاسمی، مولانا عارف حسین قاسمی، کٹیہار میں مولانا بدرالدجی، مولانا نجم الہدی، مفتی منصور، اتر دیناجپور مولانا اسلام الدین، قاری عبداللہ، مولانا ہاشم انور، مولانا ممتاز مظاہری وغیرہ کی نگرانی میں ہر ضلع میں سروے کا کام جلد مکمل کر لیا جائے گا،

اورنگ آباد کے مسلمانوں کے اتحاد کی ایک اور بڑی کامیابی

اورنگ آباد کے مسلمانوں کے اتحاد کی ایک اور بڑی کامیابی
مرکزی وزارتِ داخلہ نے تمام ریاستی حکومتوں کو پابند کیا5

اورنگ آباد(یواین اےنیوز30ستمبر2017) مسلمانانِ اورنگ آباد کے اتحاد نے ایک اور کامیابی حاصل کی ہے۔ ۲۸؍ جولائی ۲۰۱۷ ؁ء کو گؤ رکھشکوں کی غنڈہ گردی کے خلاف مسلمانانِ اورنگ آبادکے دھرنے اور مہاراشٹر مسلم عوامی کمیٹی کی جانب سے دےئے گئے میمورنڈم نے وہ اثر کر دکھایا کہ مرکزی حکومت نے تمام ریاستوں کے چیف سیکریٹریوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کے افسران کو اس سلسلہ میں خصوصی ہدایات و احکامات جاری کئے ہیں کہ گائے کے تحفظ کے نام پر کوئی پر تشدد واقعہ یا کوئی غیر قانونی سرگرمی نہ ہونے پائے۔
مہاراشٹر مسلم عوامی کمیٹی اورنگ آباد کے صدر الیاس کرمانی کے نام ارسال کردہ مکتوب مورخہ ۱۵؍ ستمبر ۲۰۱۷ ؁ء میں محکمہ داخلہ کے سیکریٹری منی رام نے لکھا ہے کہ حکومت کسی کو بھی امن وامان سے کھلواڑ کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دے گی۔اپنے مکتوب کے ساتھ انھوں نے وہ سرکلر بھی منسلک کیا ہے جو مرکزی وزارتِ داخلہ نے ریاستی حکومتوں کو روانہ کیا ہے ، اس امر پر مہاراشٹر مسلم عوامی کمیٹی کے صدر الیاس کرمانی نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ یہ مسلمانانِ اورنگ آباد کے اتحاد کی طاقت ہے جس نے یہ کامیابی عطا کی ہے ،اور اسی اتحاد کے مظاہرے نے مسلمانوں کے قتل کے سلسلے کوروکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
واضح رہے کہ گائے کے تحفظ اور گوشت کھانے کے شبہ و الزام میں مسلمانوں پر حملوں کا جان لیوا سلسلہ جاری تھا ۔مہاراشٹر مسلم عوامی کمیٹی اورنگ آباد کی کوششوں سے پارلیمنٹ اور ملک بھر میں اس سلسلے میں آوازیں اُٹھیں اور اسے احتجاج کے بعد ان حملوں کا سلسلہ بھی رُکا اور مرکزی محکمہ داخلہ نے تمام ریاستوں کو اس سلسلہ میں اپنے جاری کردہ سر کلر کے ذریعہ پابند کیا کہ گائے کے نام پر کسی کو قانون ہاتھ میں لیکر امن امان کو خراب کرنے کی اجازت نہیں ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ ان ہدایات و احکامات کی ایک نقل بھی وزارتِ داخلہ کے سیکریٹری نے الیاس کرمانی کو روانہ کی ہے، الیاس کرمانی نے اس کامیابی پر مسلمانانِ اورنگ آباد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مبارکباد دی اور کہا کہ قابلِ فخر ہیں اورنگ آباد کے مسلمان جن کی قوت نے ملک میں جاری مسلم کشی کے سلسلے کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

خون کے عطیہ سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی عطیہ نہیں ہے.(ڈی،ایم)

خون کے عطیہ سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی عطیہ نہیں ہے.(ڈی،ایم)
ہر مذہب صدقہ کا پیغام دیتا ہے کسی مذہب نے کسی کو دکھ دینے کا پیغام نہیں دیا ہ: اگن ہوتری8
(حافظ محمد ذاکر )
مین پوری 30 ستمبر، 2017۔
کسی کو قتل کرنا کسی بھی مذہب میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، کسی کی جان بچا نا ہر مذہب میں اچھا سمجھا گیا ہے،کئی بار دوسروں کی جان بچانے میں بہت سے لوگ اپنی جان گنوا دیتے ہیں، پھر بھی لوگ اپنے فرض پر عمل کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے وہ جب کسی بھی شخص کو مصیبت میں دیکھتے ہیں تو آگے بڑھ کر اس کی مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے. یہ سب مذہبی کتابوں میں کہا گیا ہے کہ ہر ایک پریشان شخص کی ہر ممکن مدد کرو ، ہم سب صحیفوں ،گرنتھوں،کے مطابق چلتے ہیں اور انسانی زندگی کو بچانے کے لئے ہر ممکنہ حد تک شراکت دیتے ہیں.
مذکورہ باتیں ضلع مجسٹریٹ پردیپ کمار نے رضاکارانہ خون کا عطیہ کیمپ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اظہارکئے،انہوں نے کہا کہخدا کی سب سے بہترین تخلیق انسان ہے اور انسان کا جسم سب سے مشکل لیبارٹری، ڈاکٹر پوری زندگی محنت کرکے اعضاء کی ریسرچ کرتے ہیں، لیکن وہ بھی مکمل طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے کام میں ماہر ہیں، انہیں سیکھنے کی ضرورت رہتی ہے،خدا کے بعد ڈاکٹر ہی بہتر علاج دے کر لوگوں کی زندگی بچا سکتے ہیں، لیکن خون کا عطیہ کرنے والا شخص بھی کسی کی زندگی بچانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے. خون کے عطیہ سے بڑا انسان کے لئے کوئی عطیہ نہیں ہے. اگر آپ کی زندگی آپ کے عطیہ خون سے بچا جاتا ہے، تو پوری زندگی آپ آرام دہ محسوس کریں گے. انہوں نے کہا کہ خون پورے جسم کو متحرک رکھتا ہے ، جسم کے ہر حصے کو فعال رکھتا ہے،انہوں نے کہا کہ ضلع میں خون عطا ء کر نے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ،یہاں کے بہت سے لوگوں نے کئی کئی بار خون کا عطیہ دیا ہے،
ممبر اسمبلی بھوگاؤں رام نریش اگنی ہوتری نے کہا کہ 84 لاکھ مراحل طے کر نیکے بعد انسان کو زندگی حاصل ہو تی ہے، اگر یہ زندگی کسی کے کام نہ آئے تو بیکار ہے؟ہم تمام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہیں، زندگی دینے کی کوشش کرتے ہیں،انسانی زندگی کو بیکار نہیں ہونے دو،مختلف مذہبی واقعات سے سبق سیکھیں اور عظیم انسانوں کے طور طریقوں ،اور ان کے احکامات کو اپنی زندگیوں میں ڈھالیں،ہر مذہب صدقہ کا پیغام دیتا ہے، کسی مذہب نے کسی کو دکھ دینے کا پیغام نہیں دیا ہ،
مسٹر اگنی ہوتری نے کہا کہ ریاستی حکومت صحت کے میدان میں تیزی سے کام کر رہی ہے،ضلع کی سطح پر صحت کیمپوں کو منظم کرکے لوگوں کی صحت کی جانچ پڑتال، تحصیل، گاؤں ،کی سطح پر کیا جا رہا ہے. پنڈت دین دیال اپادھیائے جنم اشٹمی کے موقع پر منعقد خون کا عطیہ، ٹیسٹ کیمپوں میں 17 66 لوگوں نے رجسٹریشن کرایا ہے. ان تمام کا مکمل ڈیٹا تیار کیا گیا ہے اگر کسی بھی شخص کو خون کی ضرورت ہو تو فوری طور پر عطیہ دینے والے سے رابطہ کریں وہ خود پہنچ کر خون کا عطیہ کر آپ کو خون فراہم کرے گا.

ماہِ محرم الحرام و عاشورہ کی فضیلت و اہمیت

ماہِ محرم الحرام و عاشورہ کی فضیلت و اہمیت3

اسلامی سال کا پہلا مہینہ جسے محرم الحرام کہا جاتا ہے اپنے گوناگوں پیچ و خم، عشق و وفا، ایثار و قربانی اور بے شمار فضیلت مرتبت کی دولتِ بے بہا سے معمور و سربلند ہے۔ محرم الحرام کے مہینے میں ایک دن ایسا بھی ہے جسکے مراتب و فضائل کلام الٰہی قرآن مجید و احادیث نبویہ اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں بھرے ہوئے ہیں۔ وہ دن ’’ یومِ عاشورہ‘‘ کہلاتا ہے۔ ارشادِ باری ہے پارہ 10 سورہ توبہ آیت نمبر 36 اِنََّّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرً افِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْھَا اَرْ بَعَۃُ‘ حُرُمُ‘ ط ذَا لِکَ الدِّیَنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْ فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ ط ترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اللہ کی کتاب میں جب سے آسمانوں اور زمین کو بنایا، ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں ۔ یہ سیدھا دین ہے، تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو،‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قمری سال کے مہینوں کی تعداد کا ذکر فرمایا اور حُرمت کا اعلان فرمایا ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ بلا شبہہ اللہ نے مہینوں کی تعداد بارہ ہی مقرر فرمائی ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے ایسے ہیں جن کو اللہ نے خصوصی فضیلت اور حرمت (بڑائی) سے نوازا ہے ان چار مہینوں کو حرمت والے مہینوں کا نام دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فتح مکّہ سے قبل جب مسلمان مدینہ منورہ پہنچنے لگے تو کہنے لگے کہ کہیں مکہ کے کافر حرمت والے مہینے میں ہمارے ساتھ جنگ نہ شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرً ۔۔۔ نازل فرمائی۔
خطبہ حجتہ الوداع : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ۱۰ ذالحجہ کو خطاب کیا اور فرمایا: زمانہ چکر کاٹ کر اسی ہیّت پر آگیا، جس ہیّت (حالت) پر آسمان و زمین کی پیدائش کے دن تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے، جن میں سے چار حُرمت (بڑائی) والے ہیں۔ تین پے در پے یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام اور ایک رجب المرجب (تفسیر مظہری جلد 5 صفحہ 272 ۔ تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 421 ) یومِ عاشورہ کا لفظی معنیٰ دسواں دن یا دسویں تاریخ ہے۔ مگر اب عرف عام میں یومِ عاشورہ کا اطلاق محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو ہوتا ہے جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ‘ نے اپنے 72 نفوس قدسیہ کے ساتھ مذہب اسلام کی خاطر حق کیلئے راہ خدا میں جامِ شہادت نوش فرمایا تھا۔
یومِ عاشورہ کے فضائل :
یومِ عاشورہ کے فضائل کے تعلق سے صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ‘ فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر غالب گمان ہے کہ عاشورہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ، اسی فضیلت کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ماہِ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہتے ہو تو عاشورہ کا روزہ رکھو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس ماہ کی فضیلت قرآن پاک میں آئی ہے اور اس مہینہ میں ایک دن ایسا بھی ہے جس میں اللہ سبحانہ‘ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور دوسری قوم کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ‘ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس بات کی طرف رغبت دلائی کہ وہ یومِ عاشورہ کو (توبتہ النصوح) کی تجدید کریں اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ استغفار کی قبولیت کے لئے خوب گڑ گڑائیں۔ کیونکہ اس دن جس نے بھی اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ جس طرح اس سے پہلے والوں کی توبہ قبول فرمائی تھی۔ یومِ عاشورہ پر بزرگانِ دین کی بہت سی کتابیں موجود ہیں۔ یومِ عاشورہ اپنی بے شمارنعمتوں اور ان گنت فضیلتوں سے مالا مال ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دن کو متبرک اور بہت خیر و برکت والا بتایا ہے۔ اس کا اندازہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدسرہہ‘ کی کتاب ’’ ماثبت بالسنتہ ‘‘ جس میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’ ابن جوزی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ‘ سے ذکر فرمایا کہ محرم کی دسویں تاریخ ایسی منفرد اور بے مثال تاریخ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السام کو پیدا فرمایا * اس دن ان کو جنت میں داخل کیا اور اسی دن ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اسی دن عرش و کرسی، جنت و دوزخ، زمین و آسمان، چاند و سورج، لوح و قلم، کو پیدا فرمایا۔ اور بعض علماء اکرام یہ فرماتے ہیں کہ یوم عاشورہ کو یہ نام اس لئے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن دس انبیاء اکرام علیہ اسلام کو دس عظمتوں سے نوازا ( غنیتہ الطالبین صفحہ 55)
یومِ عاشورہ کا دوسرا نام :
یومِ عاشورہ کو ’’یومِ زینت‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس دن کا یہ نام حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے۔ عَنْ اِبْنِ عُمَرِ (رضی اللہ تعالیٰ عنھما) قَا لَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّیٰ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ صَامَ یَوْمَ الزِّیْنَتِ اَدْرَکَ مَا فَاتَہُ مِنْ صِیَامِ السَّنَۃِ ۔۔ (یعنی یومِ عاشورہ) ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنھما سیمروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے یومِ زینت یعنی یومِ عاشورہ کا روزہ رکھا اس نے اپنے باقی سال کے فوت شدہ کو بھی پا لیا، ( غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54 ، ما ثبت من السُنَّتہ صفحہ 10)
یومِ عاشورہ کے اہم واقعات:
اللہ تعالیٰ نے اس دن آدم علیہ اسلام کی توبہ قبول کی * حضرت ادریس علیہ اسلام کو اس روزمقامِ بلند کی طرف اُٹھا لیا * حضرت نوح علیہ اسلام کی کشتی اس روز جودی نامی پہاڑ پر ٹھہری تھی۔ * اسی روز حضرت ابراھیم علیہ اسلام کی ولادت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل بنایا اور انہیں اسی روز نارِ نمرود (آگ) سے محفوظ فرمایا۔ * ااسی روز حضرت داؤد علیہ اسلام کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ * اسی روز حضرت سلیمان علیہ اسلام کو حکومت واپس ملی، * اسی یومِ عاشورہ کو ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ اسلام کی تکلیف دور فرمایا * عاشورہ کے دن ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو سلامتی سے سمندر پار کرایا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا۔ * یہی دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ اسلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطاء فرمائی تھی ۔ * اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو آسمان کی طرف اٹھایا تھا۔ * اسی دن حضرت یعقوب علیہ اسلام کی بینائی لوٹائی گئی اور بنی اسرائیل کیلئے دریا میں راستہ اسی دن بنایا گیا تھا۔ * آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش یومِ عاشورہ کو ہی نازل ہوئی تھی حتیٰ کہ حدیث پاک کے مطابق قیامت بھی اسی دن آئے گی، اسی دن کا روزہ بھی پہلے فرض تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے اسی دن کا روزہ رکھا اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اس دن کا روزہ رکھا تو وہ چالیس سال کا کفارہ ہوگا اور جس نے عاشورہ کی رات عبادت کی گویا اس نے ساتوں آسمان والوں کے برابر عبادت کی۔* اسی یوم عاشورہ کے دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے اور اسی یوم عاشورہ کے دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول ﷺ و جگر گوشہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا میں شہید کیا۔ اپنے وقت کے نابغہ روزگار و مایہ ناز فقیہ حضرت ابراہیم ابن محمد کوفی نے فرمایا کہ جس نے یوم عاشورہ کو اپنے عزیز و اقارب و اہل و عیال کو خوش رکھا اور ان پر خوش دلی اور دریا دلی کے ساتھ خرچ کیا تو اللہ پاک پورے سال کو اسکے لئے خیر و برکت و فراخی رزق مقرر فرما دیتا ہے۔ مفسرین فقہا و علماء فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے دن اگر کسی شخص نے یتیم و مسکین کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے بالوں کی مقدار کے مطابق ثواب عطاء فرمائے گا۔ (نزھتہ المجالس صفہ 347 جلد اول۔۔ غنیتہ الطالبین جلد دوم صفحہ 55)
یومِ عاشورہ کے اعمال :
یومِ عاشورہ کا روزہ بہت فضیلت رکھتا ہے ۔ یوم عاشورہ کا روزہ اسلام سے قبل اہل مکہ اور یہودی لوگ بھی رکھا کرتے تھے۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ‘ سے مروی ہے کہ اُمُ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’ قریش زمانہ جاہلیت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے آپ ﷺ بھی زمانہ جاہلیت میں اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے ، تب یومِ عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا، جس کا جی چاہے وہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ عاشورہ کے دن انبیاء اکرام روزہ رکھا کرتے تھے۔ حضور محسن کائینات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔اور فرمایا نو ، دس کا رکھو یا دس، اگیارہ کا رکھو۔
صُوْْ مُو یَوْمَ عَا شُوْرَآءَ یَوْمَ کَا نَتِ الْاَ نْبِیْآ ءُ تَصُوْ مُہ‘ (ترجمہ) : عاشورہ کے دن کا روزہ رکھو، کیونکہ یہ وہ دن ہے کہ اس کا روزہ انبیاء اکرام رکھتے تھے۔ (الجامع الصغیر جلد 4 صفحہ 215) یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عام معمول میں شامل تھا اور آپ اس دن کا روزہ خاص اہتمام کے ساتھ رکھتے تھے۔ ایک حدیث پاک میں حضورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چار معمولات کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ انہیں کبھی ترک نہ فرماتے تھے۔ ان چار معمولات میں ایک یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا بھی ہے۔ روایت اس طرح سے ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ چار چیزیں ایسی تھیں جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں کیا۔ یومِ عاشورہ کا روزہ اور ذو الحجہ کا عشرہ یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین روزے (یعنی ایام بیض) کے روزے اور فرض نماز فجر سے پہلے دو رکعت (یعنی سنّتیں) (رواہ النسائی و مشکواۃ شریف صفحہ 180) جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ اور ایک روایت کے مطابق ساتوں اسمانوں میں بسنے والے فرشتوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں 60 (ساٹھ) سال کی صوم و صلواۃ کی صورت میں عبادت کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ (غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 53)
یومِ عاشورہ میں دسترخوان وسیع کرنا:
عاشورہ کے دن سخاوت کرنا یعنی غریب پروری کرنا، اپنے گھر کے دسترخوان کو وسیع کرنا، گھر والوں پر خرچ کرنا رزق کے اندر وسعت و فراخی کا باعث بنتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے سیدنا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ‘ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے عاشورہ کے دن اپنے اہل و اعیال پر نفقے (خرچ) کو وسیع کیا اللہ پاک سارا سال اس پر رزق کی وسعت فراخی (زیادتی) فرماتا ہے۔ حضرت صفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اسے بالکل ایسے ہی پایا۔ (مشکواۃ شریف صفحہ 170 غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54) کشادگی رزق والی حدیثیں مختلف روایتوں کے ساتھ ملتی ہیں۔روایات کی کثرت اس حدیث مبارکہ کی صحت کو ثابت کرتی ہیں۔
یومِ عاشورہ اور واقعہ کربلا:
یومِ عاشورہ ماہِ محرم الحرام کا دسواں دن مندرجہ بالا فضیلتوں و باتوں کے برعکس اپنے اندر ایک بالکل مختلف پہلو بھی رکھتا ہے۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ اسی دن سرور کائینات صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ‘ کو میدان کربلا میں شہید کر دیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نہایت شفقت آمیز لہجہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’ حسن اور حسین میرے لئے دو مہک (خوشبو) دار پھول کی مانند ہیں‘‘ اسی حدیث پاک کی ترجمانی حضرت مولانا احمد رضا خان قدسرہ فرماتے ہیں
کیا بات رِضَا اس چمنستانِ کرم کی
زہر اہے کلی جس میں حسین و حسن پھول
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے زیادہ محبوب ان دونوں نواسوں میں حضرت حسین رضی اللہ کو حضور ﷺ کے وفات کے کم و بیش 50 سال کے عرصہ کے بعد 60 ھجری میں 10محرم الحرام کو شہید کر دیا گیادسویں محرم یعنی عاشورہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی مٹی کی شیشی (بوتل) کے اندر خون ہوگئی۔ ترمذی شریف جلد دوم میں ہے کہ دس تاریخ (یوم عاشورہ) کو ایک عورت حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں مدینہ شریف کے اندر حاضر ہوئی اسنے دیکھا حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہااشک بار ہیں عورت نے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ میں نے ابھی ابھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ریش مبارک (داڑھی) مبارک گرد و غبار سے الجھے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ابھی میں کربلا سے آ رہا ہوں آج میر ے حسین کو شہید کر دیا گیا۔ حضرت اُم المو منین رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ مجھے وہ مٹی یاد آ گئی جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ‘کی پیدائش کے وقت حضرت جبرائیل امین نے میدان کربلا سے لا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے کر فرمایا تھا کہ ’’ اے اُم سلمہ اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھو، کیونکہ جس دن میرا حسین شہید ہوگا یہ مٹی بھی خون ہو جائے گی۔‘‘ آج جب میں نے دیکھا تو وہ مٹی خون ہو چکی ہے جسے میں نے ایک شیشی کے اندر سنبھال کر رکھا تھا۔ آخیر کیسا تھا وہ بر گزیدہ اللہ کا بندہ جس نے باطل حکمرانوں کے آگے سر نہ جھکایابے یار و مددگار ہو جانے کے باوجود اللہ کے شیدائی نے محض اپنے رب سے لو لگائے ہوئے شہید ہو جانے کو نہایت جوانمردی کے ساتھ قبول کر لیا اور اپنے بعد آنے والی اُمت کے سامنے یہ مثال پیش کر دی کہ باطل قوتیں اور طاغوتی طاقتیں اسلئے نہیں ہوا کرتیں کہ امت مسلمہ کا کوئی فرد ان سے خوف کھا کر ان کے سامنے جھکنے کو تیار ہو جائے گوارا کر لے۔ امت مسلمہ کے ہر فرد کا تو یہی عمل ہونا چاہیے کہ وہ ہر باطل سے لڑ کر صرف حق کی سر بلندی کی تگ و دو میں لگا رہے اور خالقِ کائینات کے آگے سربہ سجود ہو جائے۔ واقعہ کربلا کے اس واضح پیغام سے ہمیں اپنے آپ کو مالامال کرناچاہئے اور اس تاریخ ساز مبارک دن کو کھیل تماشہ میں نہیں گذارنا چاہیے۔کیونکہ اس دن کو ایسی ذات سے نسبت ہے جس کی قربانی ملتِ اسلامیہ کو ماتم و نوحہ خوانی کی طرف دعوت دیتی ہے بلکہ وہ درسِ عبرت دیتی ہے کہ اپنے نظام حیات کے اصولوں پر قائم و ثابت قدم رہیں اور اللہ کی بارگاہ میں یقین و ایمان ، جذبہ ایثار، اور امید و رضاء کے عظیم سرمایہ حیات کو پیش کرتے رہیں کیونکہ اس میں کامیابی و کامرانی کی ر از مضمر ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو یومِ عاشورہ و اقعہ کربلا شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ‘کے سلسلہ میں صحیح سونچ اور صحیح فکر عطاء فرمائے آمین! اور ہم گناہ گاروں کو راہِ راست و راہِ اعتدال پر قائم و دائم فرمائے۔ آمین! ثمہ آمین!

(حافظ) محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
مسجدِ ھاجرہ رضویہ ، اسلام نگر، کوپالی، مانگو
جمشید پور
Mob: 09308816044

ماں درگاہ کی شوبھا یاترا اپنی سابقہ رویات کے ساتھ نکالی گئی

ماں درگاہ کی شوبھا یاترا اپنی سابقہ رویات کے ساتھ نکالی گئی 2د
(حافظ محمد ذاکر )بھوگاؤں ،مین پوری :
خوبصورت برقی سجاوٹ کے درمیان منتظمہ کمیٹی سری دیوی میلے کے قیادت میں ماں درگا شوبھایاترابینڈ باجیکے مذہبی سازوں پر صدر بازارسے نکالی گئی،خصوصی رتھ کو کمیٹی کے چیئرمین رونیش دوبے نے ماں درگاہ کی تصویر پر شمع روشن کر اور جھنڈی دکھا کر روانہ کیا گی، پیپل منڈی پہچنے پر نائب ضلع مجسٹریٹ اور ایڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ نے ماں درگا ہ کی آرتی اتاری. پروگرام میں ممبر اسمبلی رام نریش اگنی ہوتری کو ماں درگاہ کی چنری اڑھا کر نوازا گیا.
جمعہ کو دیر رات دیوی میلہ کمیٹی کی سرپرستی میں ماں درگا کی شوبھایاترا نکالی گئی. شوبھایاترا پرانی آلو منڈی سے پوجا پاٹ کے بعد شروع ہوئی. شوبھایاترا میں گنیش جی کی جھانکی کے بعد تقریباً 2 درجن جھانکیوں اور 9 پرکشش رتھوں پر ماں درگاہ کے ۹؍ چہرے سوار تھے. شوبھایاترا میں نصف درجن غیر ضلع سے آئے بینڈ مذہبی ساز بجا کر لوگو کو مدہوش کر رہے تھے.،نوجوانوں کو بینڈوں کے سازوں پر تھرکت ناچتے دیکھا گیا ، خصوصی رتھ کے آگے چل رہے ماں ویشنو دیوی کے رتھ پر صدر نے شمع روشن کی ،شوبھایاترا پرانی آلو منڈی، نرسمہا مندر، پلیا والی مسجد، سبزی منڈی چوراہا، جامع مسجد، جین مندر، پیپل منڈی، تھانہ کوتوالی، گہار کالونی ہوتے ہوئے گھنٹاگھر پہنچ کر ختم ہوئی ماں کے اہم رتھ کی درجنو جگہوں پر عقیدت مندوں نے آرتی اتار کر تبرک تقسیم کیا گیا، شوبھایاترا کو پیپل منڈی پہنچنے پر ممبر اسمبلی رام نریش اگنی ہوتری، اپر ضلع مجسٹریٹ بی ،لال اور ایڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ اوم پرکاش سنگھ، سرپرست ڈاکٹر منوج دکشت، سابق شہر پنچایت صدراپما دکشت، کمیٹی کے چیئرمین رونیش دوبے، سیکریٹری جنرل استیندر گپتا نے اجتماعی طور سے ماں درگاہ کے اہم رتھ کی آرتی اتاری.

میاں کی منہدی نامی تعزیہ اپنی سالہا سال کی روایات پر نکالا گیا

میاں کی منہدی نامی تعزیہ اپنی سالہا سال کی روایات پر نکالا گیا 4
(حافظ محمد ذاکر )بھوگاؤں ،مین پوری
سالہا سال سے چلی آرہی روایت کی بنیاد پر محرم پر فاضل شاہ بابا رحمت اللہ علیہ کے نام سے نکالے جانے والی قاسم کی مہندی نامی تعزیہ دیر رات تک سبزی منڈی چوراہے پر موجود رہا ، مہندی نامی تعزیہ کے آگے آگے بینڈ باجے غمگین سربجا تے چل رہے تھے، جمعہ کو مہندی نامی تعزیہ بہ نسبت میاں فاضل شاہ تعزیہ محلہ پتھریا سے قرآن خوانی ، تلاوت ، فاتحہ کے بعد دیرات 10 بجے پلیا والی مسجد کے قریب پہنچا،مہندی کو سبزی منڈی چوراہے سے لے کر محلہ محمد سعید،بڑا بارازا، صدر بازار ، کریا نیم ، محلہ پریم چریا ہوئے محلہ محمد سعید کے امام باڑے تک پہنچا،مہندی نامی تعزیہ کے سامنے، لوگ حیرت انگیز کرتب دکھا رہے تھے
اس موقع پر عشرت علی، غیاث احمد، اشفاق علی، ادریس، لاڈلے خاں، اکبر قریشی، ماسٹر گلزار، عبدالجلیل، عبدالسلام،محمد ناظم، محمد طارق، محمد اقبال، صابر حسین، جاوید حسین وغیرہ لوگ مہندی کے آگے مرثیہ خوانی پڑھتے ہوئے چل رہے تھے.

روہنگیائی مسلمان ، مولانا وحید الدین خان کی نظر میں!

روہنگیائی مسلمان ، مولانا وحید الدین خان کی نظر میں!و

نویں صدی عیسوی سے عرب اور دیگر مسلم تاجروں کی راکھین (قدیم اراکان) میں آمد شروع ہوئی۔ یہ برما (میانمار) کی ایک ریاست ہے ، جواس کے مغرب میں واقع ہے۔ ابتدائی دنوں میں ہی ان تاجروں میں سے کچھ لوگ وہاں آباد ہوگئے۔ان کے اثر سے مقامی آبادی میں آہستہ آہستہ اسلام پھیل گیا، یہاں تک کہ راکھین ریاست کی ایک بڑی آبادی مسلمان ہوگئی۔ صدیوں تک، اراکان کے یہ مسلمانوں برما کے باقی لوگوں کے ساتھ پرامن زندگی بسر کرتے رہے۔ یہ پرامن حالت اس وقت تک باقی رہی جب تک کہ ان کے درمیان علیحدگی پسند رجحانات پیدا نہیں ہوئے۔ تاہم 1947 میں جب مشرقی پاکستان قائم ہوا ، تو روہنگیا کےبعض جذباتی مسلم رہنماؤں نے اس کو دیکھ کر روہنگیا میں برما سے علاحدہ ایک آزاد مسلم ریاست بنانے کی کوشش شروع کردی ۔ انہوں نے اپنی اس کوشش کو “سیاسی خود اختیاری” کا نام دیا۔دھیرے دھیرے یہ تحریک تیز ہوتی گئی، اور بہت سے انتہا پسند مسلمانوں نے اس میں پوری سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا۔ میانمار کی مرکزی حکومت نے ان کی کوششوں کو بغاوت کے طور پر دیکھا۔کیوں کہ حقیقت کے اعتبار سےیہ حکومت میانمار سے علیحدگی کی ایک تحریک تھی۔اس بغاوتی تحریک سے پہلے، روہنگیا کے مسلمان میانمار کے دوسرے لوگوں کے ساتھ پر امن طریقہ سے رہ رہے تھے۔ لیکن علیحدگی پسند رہنماؤں نے جذباتی تقریروں کے ذریعہ روہنگیا میں بسنے والے مسلم و غیرمسلم کے درمیان اختلاف کو ہوا دی۔ ان کی علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لئے میانمار حکومت نے ان کے خلاف سخت کارروائی کی ، جو کہ روہنگیا کے مسلم رہنماؤں کے مطابق ظلم کا عمل تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت میانمار کی یہ کارروائی اپنے ملک میں نظم و ضبط (law & order)کو قائم کرنے کے لیے تھی۔ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام نے روہنگیا کے مسلم رہنماؤں کو ایک قسم کا حوصلہ دیا، جس نے ان کی علیحدگی پسند سرگرمیوں کو اور تیز کیا، مگر نتیجہ یہ نکلا کہ میانمار کی حکومت نے پہلے سے کہیں زیادہ سختی سے بغاوت کی تحریک کو کچل دیا۔ یہ ہے مختصر طور پر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا پس منظر۔ جب میں لکھنؤ میں تھا ، شاید 1966کی بات ہے ۔ ایک دن، ایک عالم دین نے مجھ سے کہا کہ وہ میانمارجا رہےہیں۔ انھوں نے مزید یہ پوچھا کہ کیا میں ان کے ساتھ برما جاسکتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کیوں، انہوں نے جواب دیا کہ وہاں مسلم ریاست کے قیام کی تحریک چل رہی ہے،میں بھی اس میں بھر پور طور پر حصہ لینا چاہتا ہوں۔ میں نے ان کی بات کی سختی سے مخالفت کی۔ میں نے ان سے کہا کہ کچھ لوگ اس قسم کی تحریک چلاکر سوچتے ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر ریاست قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، حقیقت کے اعتبار سے اس طرح کی ہر ایک سرگرمی صرف کشیدگی اور نقصان میں اضافہ کے ہم معنی ہے۔میں نے ان سے مزید یہ کہا کہ میں ان کے اس عمل کو سخت ناپسند کرتا ہوں، جو کہ اپنی شکل کے اعتبار سے حقیقی اسلام نہیں ہے ، بلکہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے تنازعہ اور خون خرابے کا سبب ہوگا۔ میں نے یہ واضح کیا کہ میں ان چیزوں میں ان کی حمایت نہیں کرسکتا۔میرے جواب کو سن کر مذکورہ عالم مجھ سے ناراض ہو کرچلے گئے۔ 1966 کے بعد سے، روہنگیا مسلمان کے بارے میں میری رائے صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے: روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ ظلم کا نہیں ہے، بلکہ مسلم رہنماؤں کی طرف سےاختیار کیے گیےغلط سیاسی موقف کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انجام کاہے، جس کو روہنگیا کے مسلم لیڈروں نے بھڑکا کر ان کے لیےجذباتی ایشو بنادیا ۔اگر تصویر کے دونوں رخ کو دیکھاجائے، تو اس سے ایک آدمی اس نتیجے پر پہنچے گا کہ روہنگیا مسلمان ظلم کا شکار نہیں ہیں، اس کے بجائے وہ مسلم رہنماؤں کی ان سیاسی سرگرمیوں کی قیمت ادا کررہے ہیں، جو کہ غیر حقیقت پسندی پر مبنی تھی۔ اس طرح کی علیحدگی پسند تحریک کسی بھی ملک کے لئے ناقابل قبول ہے، اگرچہ اس کو حکومتِ خود اختیاری کا خوبصورت نام دے دیاجائے۔ روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات کا صرف ایک ہی حل ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ اپنی بغاوت اور عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کو لازمی طور پر ختم کریں ۔وہ اس حقیقت کو قبول کریں کہ وہ میانمار قومیت کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ انہیں علیحدگی پسند رجحانات کو اپنے دلوں سےنکال دینا چاہئے، تب مجھے یقین ہے کہ میانمار کی حکومت ان کو قبول کرے گی، اور مسئلہ پوری طرح پرامن طریقہ سے حل ہو جائےگا۔ علیحدگی پسند تحریک نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت کو بد سے بدتر کیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے وہ میانمار میں خوشحالی کی زندگی گزار رہے تھے۔اصل یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا بہترین مفاد علاحدہ ملک میں نہیں ہے، بلکہ میانمار کی ریاست کا حصہ بن کر رہنے میں ہے۔ یہ مذہبی اور سیکولر احساس دونوں اعتبار سے درست ہے۔ 1934 میں، مَیں نے مذہبی تعلیم کے لئے اعظم گڑھ کے اندر ایک عربی ادارہ، مدرسۃ الاصلاح میں داخلہ لیا۔ اس مدرسہ میں میرا صرف ایک دوست تھا، عبد الرشید رنگونی (وہ برما کا تھا)۔ وہ ایک مہذب شخص تھا، اور اس وقت کے برما کے بارے میں وہ بہت اچھی رائےرکھتا تھا۔اس کے تاثر کی بنیاد پر برما کے لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے، میں یہ کہوں گا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا الزام برما حکومت کی انتظامیہ کے اوپر نہیں ہے، بلکہ ان غیرحقیقت پسندانہ سرگرمیوں پر ابھارنے والے رہنماؤں کے اوپر ہے،جنھوں نے اس خطہ میں تشدد کی سرگرمیاں شروع کیں۔ ان متشددانہ کارروائیوں کو بڑھاوا دینےاور صورت حال کو سنگین کرنے میں باہر کے مسلم رہنماؤں نے بھی حصہ لیاہے۔ لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ برما کے لوگ بہت اچھے ہیں، وہ روہنگیا مسلمانوں کو دوبارہ کھلےدل سے قبول کریں گے۔ بشرطیکہ روہنگیا مسلمان یہ تسلیم کریں کہ علیحدگی پسند رہنماؤں کی طرف سے وہ غلط رہنمائی کا شکار ہوئے ہیں، اور اب وہ میانمار کے وفادار شہری بن کر رہیں گے۔ روہنگیا مسلمانوں کو یہ جاننا چاہئے کہ اس دنیا میں دوستی اور دشمنی دونوں اضافی چیزیں ہیں۔ اگر آپ کسی دوسرے شخص کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے تو وہ بھی یقینی طور پر آپ کو ایک دوست کے طور پر قبول کرے گا۔ اس قدرتی قانون کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ (41:34) URL: http://www.newageislam.com/urdu-section/maulana-wahiduddin-khan-for-new-age-islam/rohingya-musalman–روہنگیا-مسلمان/d/112643 New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

سنت کبیر نگر کانوجوان کھلاڑی سعد اعظم 3اکتوبر کو کانپور ریاستی سطح کے کرکٹ میچ میں دکھائےگا جلوا!

سنت کبیر نگر کانوجوان کھلاڑی سعد اعظم 3اکتوبر کو کانپور ریاستی سطح کے کرکٹ میچ میں دکھائےگا جلوا!د

مہندوال ،سنت کبیر نگر/رپورٹ،اسماعیل جونپوری(یو این اے نیوز 29ستمبر 2017)نیشنل انٹرکالج مونڈا ڈیہا بیگ کے دو طلباء ریاستی سطح کے کرکٹ مقابلہ کے لئے سلیکٹ کیۓ گئے ہیں، یو این اے نیوز کے نمائندے اسماعیل عمران جونپوری نے سعد اعظم سے فون پر ریاستی سطح پر منتخب ہونے کے بابت پوچھا تو سعد نے کہاں کہ ہمارے ساتھ ایک اور طالب علم فاروق اعظم کو ریاستی مقابلے کے لیے بھی منتخب کیا گیا ہے اس انتخاب سے اسکول انتظامیہ سیمت سعد اعظم کے گاؤں میں بھی خوشی کا ماحول ہے ایک سوال کے جواب میں انکے والد نے کہا کہ بیٹے کی لگن اور اسکول کی رہنمائی ہی کی بدولت میرے بیٹے کو یہ مقام ملا ہے اللہ کی ذات سے امید ہیکہ آئندہ 3اکتور کو کانپور کے گرین پارک میں ریاستی سطح پر ہونے والے مقابلے میں ایک بہتر مظاہرہ کریگا ،اور اپنے علاقے کا نام روشن کریگا،واضح رہے دونوں طلباء میں فاروق اعظم درجہ 11 اور سعد اعظم 12ویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں ، اس موقع پر یو این اے نیوز کی پوری ٹیم سعد اعظم فاروق اعظم کو تہ دل سے مبارک باد پیش کرتی ہے اور انکے روشن مستقبل کے لیے اللہ سے دعا گو ہے۔ نوٹ بہت ہی جلد سعد اعظم یو این اے نیوز کے فیس بک پیج پر اپنی بات لائیو رکھیں گے،

اعظم گڑھ کے چھتے پور بازار میں جھولا چھاپ ڈاکٹر کے علاج سے مریض کی موت،ہوا ہنگامہ!

اعظم گڑھ کے چھتے پور بازار میں جھولا چھاپ ڈاکٹر کے علاج سے مریض کی موت،ہوا ہنگامہ!

w

سرائے/چھتے پور،رپورٹ،محمد یاسر(یواین اے نیوز29ستمبر2017)سرائےمير تھانہ علاقہ کے چھتےپور بازار میں 24 سالہ خاتون کو ڈاکٹر کی طرف سے ملیریا اور ٹائفائڈ بخار کا انجکشن لگانے سے موقع پر ہی موت واقع ہو گئی، بھیڑ آتا دیکھ دواخانا سے ڈاکٹرفرار ہو گیا.معلومات کے مطابق ریما 24 بیوی سنجے راج بھر جو صرف دو بہنیں تھی کوئی بھائی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں بہنیں اپنے والد موتی راج بھر کے آبائی گاؤں میں ہی رہتی ہیں. ریما کو جانچ میں ملیریا اور ٹائفائڈ بخار نکلا وہ گرام بچھياپور تھانہ ديدارگنج رہائشی ڈاکٹر سودھا شنکر یادو بیٹے رام كرن یادو کے دواخانے پر جوکہ سرائےمير تھانہ علاقہ کے چھتےپور مارکیٹ میں واقع ہے علاج کے لئے گئی تھی وہاں پر ڈاکٹر سودھا شنکر یادو نے علاج کے دوران ایک انجکشن لگایا اس کے بعد دواخانے پر ہی عورت کی موت ہوگئی، دواخاناپر عورت کی موت کی خبر سنتے ہی مارکیٹ کے لوگ ایک ایک کرکے ڈاکٹر سودھا شنکر کے دوا خانے پر آنے لگے، لوگوں کو آتا دیکھ ڈاکٹر ہسپتال چھوڑ کر فرار ہوگیا، میت کے اہل خانہ نے لاش کو گھر میں لا کر پوسٹ مارٹم کرنے کے تعلق سے آپس میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں میت کی پانچ سالہ لڑکی اور تین سال کا ایک لڑکا ہے.

پیکپ نے ماری بائیک سوار کو ٹکر،شاہ عالم کی ہوئی موت۔

پیکپ نے ماری بائیک سوار کو ٹکر،شاہ عالم کی ہوئی موت۔i.png

سگڑی٬اعظم گڑھ(یواین اے نیوز29ستمبر2017)سگڑی جين پور کوتوالی علاقے کے بیرما گاؤں کے قریب مبارکپور جا رہے نوجوان کے سامنے سے آنے والی پک اپ سے آمنے سامنے تصادم میں موقع پر ہلاک ہو گیا،
انا للہ وانا الیہ راجعون
پولیس نے لاش کو قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دیا ہے جبکہ گاڑی کا ڈرائیور پیکپ سمیت موقع سے فرار ہو گیا،معلومات کے مطابق شاہ عالم ولد محمد توحيد عمر تقریبا 30 سال گرام شیخ کی ٹیگري تھانہ بانس گاؤں گورکھپور کا باشندہ تھا اور صبح گھر سے تقریباً 10 بجے مبارکپور موٹر سائیکل سے دوپہر تقریبا 12:00 بجے مبارکپور کسی کام سے جا رہا تھا کہ بیرما گاؤں کے پاس تھانہ جين پور کے مبارکپور کی جانب سے تیز رفتار سے آ رہی پیکپ سے آمنےسامنے سے ٹکر ہو گئی.دوپہیا نوجوان کی موقع پر موت ہو گئی. میت اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور سعودی عرب میں رہ کر پرائیویٹ نوکری کرتا تھا.اؤر گھر میں ایک ماہ پہلے ہی آیا تھاپتني حسینہ اور بیٹی عمر تقریبا 05 سال تمنا کا رو رو کر برا حال تھا پلس نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دیا گیا.